by Irmglobe_1955 Irmglobe_1955

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا:

یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا یوری سواتکم وریشاولباس التقوی ذلک خیر ذلک من ایت اللّٰہ لعلھم یذکرون   (الاعراف26:7)

 ’’اے اولاد آدم! بے شک اتارا ہم نے تمہارے اوپر لباس جو ڈھانپتا ہے تمہاری شرمگاہوں کو اور باعث زینت ہے اور پرہیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں‘‘۔

 اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ہم سب کو فرما رہا ہے کہ اے آدم کی اولاد بے شمار نعمتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے لباس کی نعمت بھی انسان کو عطا کی اور پھر حکم فرمایا کہ لباس اس لئے نازل کیا کہ تمہارے قابل شرم حصوں کو ڈھانپے۔ دین اسلام نے لباس کے معاملے میں مرد و عورت کے لئے ایک حد مقرر کی ہے مرد کے لئے ناف سے گھٹنوں تک ڈھانپنا ضروری ہے (اس حصے کو ستر عورت کہتے ہیں) اور (آزاد) عورت کے لئے سر کے بالوں سے پاؤں تک چھپانے کا حکم ہے۔ وہ باریک لباس جس میں بدن کی رنگت نظر آئے اور ایسا چست لباس جو جسم کے پوشیدہ اعضاء کو نمایاں کردے مرد و عورت دونوں کے لئے خلاف شریعت اور بے حیائی کے مترادف ہے۔ مردوں کو نیکرshorts پہن کر ہاکی یا فٹبال کھیلنا، ریسلنگ (کشتی) لڑنا اور دوسرے مردوں اور عورتوں کا انہیں دیکھنا سخت حرام ہے کیونکہ ان صورتوں میں رانیں (ستر عورت) برہنہ ہوتی ہیں۔ نبی مکرم  ﷺ  نے ارشاد فرما یا:

لا ینظر الرجل الی عورۃ الرجل ولا المرأۃ الی عورۃ المرأۃ (صحیح مسلم:رقم الحدیث:676)

کوئی مرد کسی مرد کی شرمگاہ کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرمگاہ کو دیکھے۔                                 ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ سرکار دو عالم حضور نبی کریم  ﷺ نے فر مایا:

   الفخذ عورۃ۔ ران شرمگاہ ہے۔(جامع الترمذی: ابواب الاستیذان:باب ما جاء ان الفخذ عورۃ)

ایک اور حدیث شریف ہے:لعن اللہ الناظر و المنظور الیہ(مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:2991)

یعنی جو شخص کسی کی شرمگاہ دیکھتا ہے اور جس کی طرف دیکھا جاتا ہے دونوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔

مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک ہے اللہ کے محبوبﷺ فرماتے ہیں:

’’برہنہ ہونے سے بچتے رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ رہتے ہیں جوتم سے جدا نہیں ہوتے سوائے قضائے حاجت اور مباشرت کے وقت،پس ان سے حیاء کرو اور ان کی عزت کرو‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:2981) 

اللہ کا خوف رکھنے والے مرد اور عورتوں کے لئے ان احادیث میں بڑی عبرت ہے۔ ان احادیث   میں ذکر کردہ وعیدوں سے ان مرد وں اور عورتوں کو بھی ڈرنا چاہیئے جو بلا جھجک ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہو کر کپڑے بدلتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا :

یایھا الذین امنوا لا تتبعوا خطوات الشیطن و من یتبع خطوات الشیطن فانہ یامر بالفحشاء والمنکر    (النور21:24)

ترجمہ:- ’’اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلتاہے تو وہ  یقینابے حیائی اور برے کاموں کاحکم دیتا ہے۔‘‘

چند شرعی احکام:

اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:  المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان       (مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:2975)

ترجمہ:- ’’ عورت چھپانے کے لائق ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتا ہے‘‘۔

 یعنی شیطان اسے لوگوں کی نظروں کے سامنے حسین بنا کر دکھاتا ہے اور پھر لوگ اسے گھورتے ہیں اسی لئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے پیچھے مردوں پر عورتوں سے زیادہ کوئی مضرآزمائش نہیں چھوڑی۔  (جامع الترمذی:ابواب الاستیذان و الادب:باب ماجاء فی تحذیر فتنۃ النساء)

 یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت مردوں کے لئے ایک اہم آزمائش ہے بیٹی کے روپ میں باپ کے لئے، بہن کے روپ میں بھائی کے لئے، بیوی کے روپ میں شوہر کے لئے اور ماں کے روپ میں اولاد کے لئے۔اگر عورت بے پردہ اور بے حیا ہوجائے تو اسے دیکھنے والے مرد بھی بے حیا اور بے غیرت ہوجاتے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں یوں ایک بے حیا عورت کی وجہ سے کئی لوگوں کے ایمان ضائع ہوجاتے ہیں۔ “حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم  ﷺ نے فرمایا تین شخص ہیں جو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ ایک ہمیشہ شراب پینے والا،ماں باپ کا نافرمان اور دیوث جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی والے خبیث کاموں کو برقرار رکھے”(مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:3487)

ایک اور حدیث شریف میں آیا ہے:اللہ تعالیٰ مردوں کی وضع قطع اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں کی وضع قطع اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔

(جامع الترمذی:ابواب الاستیذان و الادب:باب ما جاء فی المتشبھات بالرجال من النساء)

عورت کی نقل اتارنے والے سے مراد وہ مرد ہیں جو اپنی وضع قطع عورتوں کی طرح بناتے ہیں، لمبے لمبے بال رکھ کر داڑھی اور مونچھیں صاف کرکے، گلے میں لاکٹ پہن کر ریشمی یا پرکشش لباس پہن کر پھرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا  “دوزخیوں میں سے دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا،ایک وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیلوں کی دم کی طرح کوڑے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں۔دوسری وہ عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے با وجود عریاں ہوں گی وہ راہ حق سے ہٹانے والی اور خود بھی ہٹی ہوئی ہوں گی ان کے سر بختی اونٹوں کی طرح  ایک طرف جھکے ہوئے ہوں گے وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی اور بے شک جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی ہے۔(صحیح مسلم:رقم الحدیث:5467)

 یعنی کہ وہ عورتیں جو اس قدر باریک،ایسی لاپرواہی سے کپڑے استعمال کرتی ہیں کہ ان کا بدن چمکتا ہے اور کہیں سے کھلا ہوتا ہے اور کہیں سے چھپا ہوا۔ خود بھی دوسرے مردوں کی رغبت رکھتی ہیں یعنی بناؤ سنگھار کرکے دوسروں کے دل لبھاتی ہیں یا سر سے دوپٹہ اتار دیتی ہیں جس سے دوسرے مرد ان کا چہرہ دیکھتے ہیں اور مٹک مٹک کر چلتی ہیں  (تاکہ دوسروں کو فریفتہ اور اپنی طرف مائل کرسکیں) یہ عورتیں ہر گز جنت میں نہ جائیں گی اور جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی۔

 حضرت ابوہریرہ ؓ  بیا ن کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فر ما یا:

 اللہ تعا لی نے اولا د آدم پر ان کی ز نا کاری کا حصہ لکھ دیا ہے،جس کو وہ لا محا لہ پا ئیں گے، آ نکھو ں کا زنا دیکھنا ہے،زبان کا زنا بولنا ہے،نفس تمنا کر تا ہے اور شہوت کر تا ہے اور اس کی شرم گا ہ تصد یق کر تی ہے یا تکذیب کرتی ہے۔  (بخاری:کتاب الاستیذان:باب زنی الجوارح دون الفرج) 

ذرا سوچئے لوگ کہتے ہیں کہ پردہ کرنا کوئی ضروری نہیں پردہ تو آنکھوں کا ہوتا ہے اگر خیمہ اوڑھ لیا جائے تو یہ جہالت ہے اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں عاجز ایک سچا واقعہ عرض کرتا ہے۔ عاجز سندھ یونیورسٹی میں ایم ایس سی کا طالب علم تھا اور عاجز کی رہائش حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں تھی عاجز کے ساتھ ہی دوسرے کمرے میں انڈس گیس کے ایک انجینئر صاحب رہائش پذیر تھے۔ ہم فارغ وقت میں مل کر بیٹھتے اور کوئی نہ کوئی دینی گفتگو شروع ہوجاتی۔ ایک دن وہ انجینئر صاحب فرمانے لگے مقصود صاحب!میں سمجھتا ہوں کہ دین اسلام کے سب احکامات ہمارے لئے بھلائی اور رحمت ہیں لیکن یہ مولوی صاحبان پردے پر اتنا زور دیتے ہیں، میں اس کا قائل نہیں پردہ دراصل آنکھ کا پردہ ہے اگر عورت کو برقعہ پہنا دیا جائے لیکن وہ گندی ہو تو یہ برقعہ کچھ نہیں کرتا اور بندے میں شرم و حیا ہو تو اسے پردے کی ضرورت نہیں۔

عاجز نے عرض کی کہ برادرم پردے کے بارے میں مولوی صاحبان اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب  ﷺ کے احکامات ہیں اگر ہم ان احکامات سے اپنے خیالات کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اللہ اور اس کے محبوب  ﷺ سے اپنے آپ کو زیادہ سمجھنے لگے، دراصل یہی ہماری بے وقوفی ہوگی لیکن عرض یہ ہے کہ کیا آپ اپنے خیالات کی حقانیت کے لئے کوئی ایک ثبوت دیں گے؟ تو ان انجینئر صاحب نے فرمایا کہ اس کی دلیل میں خود آپ کے سامنے بیٹھا ہوں عاجز نے عرض کی کہ وہ کس طرح؟ انجینئر صاحب نے فرمایا کہ میرے محکمے میں ایک دوسرے انجینئر صاحب نے مجھے اپنے گھر میں دعوت پر بلایا۔ اس کی بیوی نے مجھ سے پردہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے اس سے پردہ کیا وہ مجھے بھائی جان، بھائی صاحب کہہ کہہ کر کھانے پیش کرتی رہی۔ اس نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا لیکن خدا کی قسم میرے دل میں اس کے لئے کوئی برا خیال پیدا نہیں ہوا۔ عاجز نے عرض کی کہ آپ ایک قسم اور اٹھائیں کہ خدا کی قسم اس عورت کے دل میں بھی میرے لئے کوئی برا خیال پیدا نہیں ہوا۔ اس پر وہ شرمسار ہو کر کہنے لگے کہ میں اس کے لئے تو قسم نہیں اٹھا سکتا۔ پھر عاجز نے عرض کی کہ اب آپ غور سے سنیں کہ ایک قسم میں بھی اٹھاتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ اللہ کی قسم آپ کے دل میں اس عورت کے لئے برے خیالات پیدا ہوئے۔ یہ سنتے ہی وہ ہل کر رہ گئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا کہ آپ سچے ہیں میرے دل میں اس کے لئے برے خیالات پیدا ہوئے تھے۔ عاجز نے عرض کی کہ میں تو گناہ گار بندہ ہوں لیکن میرا رب سچا ہے میرے رسول  ﷺ سچے ہیں اور میرے دین کا ایک ایک لفظ سچا ہے اور جو سچ کو نہ مان کر گمراہی قبول کرے وہی خسارے میں ہے۔ رب العزت ہمیں فلاح عطا فرمائے اور دین اسلام کی کامل تابعداری عطا فرمائے۔