یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ محرم اور نامحرم میں کیا فرق ہے۔ محرم وہ مرد ہے جس کا نکاح اس عورت سے حرام ہو اور جن کا نکاح آپس میں ہوسکتا ہے وہ تمام نامحرم ہیں اگرچہ رشتہ دار ہوں یا غیر لوگ۔ محرم بھی دو قسم کے ہوتے ہیں:- ایک وہ محرم جو ذی رحم بھی ہو جیسے باپ اور بیٹا بھائی وغیرہ ۔ دوسرا وہ محرم جو ذی رحم نہ ہو جیسے دودھ شریک بھائی، داماد، سسر وغیرہ ۔
محرم مندرجہ ذیل ہیں
باپ، بیٹا، بھائی، داماد، سسر، دودھ شریک بھائی، شوہر کا باپ، شوہروں کے بیٹے، بھائیوں کے بیٹے، چچا، ماموں۔ جاننا چاہئے کہ بہنوئی نامحرم ہے۔ بہنوئی سے اگرچہ وقتی طور پر نکاح حرام ہے مگر دائمی حرام نہیں کیونکہ بہن کی طلاق یا وفات کے بعد حلال ہے لہٰذا سالی کو بہنوئی سے پردہ کرنا چاہئے اسی طرح دیور بھی نامحرم ہے کہ جب دیور کے متعلق نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
الحمو الموت ’’دیور تو موت ہے‘‘ (صحیح مسلم:رقم الحدیث:5559)
نامحرم : خالہ کی طلاق یا وفات کے بعد خالو، پھوپھی کی طلاق یا وفات کے بعد پھوپھا، دیور، جیٹھ کے علاوہ چچا کے بیٹے، پھوپھی کے بیٹے، ماموں کے بیٹے اور خالہ کے بیٹے بھی شامل ہیں ان سب سے پردہ فرض ہے۔
ایک اور شیطانی ہتھیار جس نے بہت سی پاکدامن عورتوں کو فتنہ میں مبتلا کردیا ہے وہ منہ بولا بھائی، منہ بولا بیٹا یا منہ بولا باپ وغیرہ ہے۔ اچھی طرح کان کھول کر سن لیں کہ اسلام میں ان خرافات اور بے حیائی پر مبنی رشتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ محض شیطان کا بہکاوا ہے۔ محرم مردوں کے علاوہ دنیا کے ہر مرد سے ہر عورت کے لئے پردہ کرنا لازم ہے اسی طرح عورت پر اپنے پیر و مرشد سے پردہ کرنا بھی لازم ہے۔ ایسے نقلی پیر جن کا نامحرم عورتوں کے بغیر دل ہی نہیں لگتا۔ دنیا بھر کی عورتوں کو اکھٹا کرکے بیچ میں بیٹھ جاتے ہیں، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ یہ پیری مریدی نہیں بلکہ سراسر بے حیائی پر مبنی کاروبار ہیں۔ ایسی مجلسوں میں نہ عورتیں دین سیکھنے جاتی ہیں اور نہ ہی ایسے بے حیا پیروں کو دین سے کوئی غرض ہوتی ہے۔ ایسی جگہیں صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کرکے اپنی آخرت کو بگاڑنے کے اڈے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان عطا فرمائے۔
میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں ایک سچا واقعہ عرض کرتا ہوں سنئے اور عبرت حاصل کیجئے۔ عاجز کے پاس حلقہ ذکر میں ایک نوجوان آتا ہے، اس نے تنہائی میں عاجز سے فرمایا کہ میرے گھر میں ایک شخص آتا ہے جو میری امی جان کا بھائی بنا ہوا ہے۔ میں اسے کئی سال سے آتا جاتا دیکھتا ہوں ہم اسے ماموں کہتے ہیں لیکن جب میں نے آپ کا درس سنا کہ ہمارے دین میں منہ بولا بھائی یا منہ بولا بیٹا بنانے کی اجازت نہیں تو میں نے گھر میں امی جان سے بات کی امی جان نے مجھے مارا کلہ تم مجھ پر شک کرتے ہو۔ عاجز نے اس بچے کو سمجھایا کہ امی جان سے کہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے، اس پاک ذات نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اور وہ پاک ذات ہماری رگ رگ سے واقف ہے کیونکہ اللہ کے دین میں منہ بولے رشتے کی اجازت نہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم دین کو اپنے تابع نہ کریں بلکہ خود دین کے تابع ہوجائیں لیکن اس کی امی جان نہ مانیں۔ چند ماہ کے بعد ہی یہ منہ بولے بھائی اور بچوں کے منہ بولے ماموں جان اپنی منہ بولی بھانجی کو لے کر بھاگ گئے اور کئی ماہ تک بغیر نکاح کے اپنے پاس رکھا اور بعد میں کورٹ کے ذریعہ نکاح کرلیا اور اس واقعہ پر ماں رو رو کر پاگل ہوگئی اور روتی تھی اور پیٹتی تھی کہ ہائے میں نے اللہ کے دین پر عمل کیوں نہ کیا۔” اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل ہونے سے پہلے ہدایت عطا فرمائے۔ (آمین)
سورۃ النور میں عورتوں کو حکم ہے کہ اپنی چادریں سینوں پر ڈالے رہا کریں۔ صالحین فرماتے ہیں کہ عورت سب پردہ ہے اسی لئے عورتوں کو سر اور سینہ ڈھانپنے کا خاص اہتمام رکھنا چاہئے اس سے بہت سے فتنوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔اسی سورت میں مزید حکم ہے کہ عورتیں چلتے وقت اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر وہ آواز جو رغبت اور دلکشی کا باعث بنے ممنوع ہے۔ اس لئے عورتوں کو جھانجن والی پازیب اور اسی طرح کھنکتے ہوئے زیورات نہیں پہننے چاہئیں۔
غور فرمائیے جب زیور کی آواز چھپانے کاحکم ہے تو خود عورت کی آواز اور بے پردگی تو یقینا ہلاکت و بربادی کا باعث ہوگی۔ اس لئے شریعت پاک نے عورت کی آواز اور اس کے چہرے کو بھی ستر (یعنی چھپانے کی چیز) قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے لوگ عورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کئی فتنے جنم لیتے ہیں۔ عام طور پر اخلاق ہم اسے کہتے ہیں کہ نرمی اور محبت کے ساتھ گفتگو کی جائے لیکن غیر محرم مرد کا عورت کے ساتھ اور نامحرم عورت کا مرد کے ساتھ محبت سے بولنا شریعت اسلامیہ میں بداخلاقی کہا گیا ہے۔ اس لئے کہ اس سے قرب پیدا ہوتا ہے اور غیر محرم سے قرب سراسر تباہی و بربادی ہے۔ آج کل خواتین بازار میں اپنے کپڑے سلواتی ہیں، نامحرم درزی کو پیمائش دیتی ہیں۔ جب کپڑے سل کر تیار ہوجاتے ہیں تو Trial Room میں جاکر ان کو پہنتی ہیں۔ لباس ڈھیلا یا چست ہونے پر درزی کو بلا کر دکھاتی ہیں اس وقت درزی باجی باجی کہہ کر ان سے باتیں کرتا ہے اور بعد میں دوستوں کے اندر بیٹھ کر جب باتیں کرتا ہے تو غیرت مند مرد یا بھائی اگر سن لیں تو ان کے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے ہی تو نہیں فرمایا:”جب مرد عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:2984)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:کسی عورت کے لئے بغیر محرم کے لئے ایک رات کی مسافت کا سفر کرنا بھی جائز نہیں۔(صحیح مسلم:رقم الحدیث:3162)
ایک اور جگہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے ا لاّ یہ کہ اس کا محرم سا تھ ہواور کوئی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے،ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہﷺ!میری بیو ی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلا ں فلاں جہاد میں لکھا ہوا ہے، آپﷺ نے فر ما یا! جاؤ تم بھی اپنی بیوی کے سا تھ حج کرو۔ (صحیح مسلم:رقم الحدیث:3168)
حضور نبی کریم ﷺ نے اگرچہ عورتوں کو مسجد نبوی میں آکر باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت عطا فرمائی تھی لیکن اس اجازت کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیاتھا کہ ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:995)
یعنی عورتوں کے لئے تنہا نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اندرونی کمرے میں نماز پڑھنا بیرونی کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
پس جاننا چاہئے کہ پردہ سے مراد عورت کو پھانسی پر لٹکانا نہیں ہے بلکہ اس کی عزت کو بے حیا اور شریروں کے شر سے بچانا ہے۔
چاند رات کو بازار میں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے یوں پھر رہے ہوتے ہیں کہ کندھے سے کندھا لگتا ہے اس حالت کو دیکھ کر شیطان تو خوشی سے ننگا ناچتا ہوگا۔ نوجوان لڑکیاں مردوں سے چوڑیاں پہن رہی ہوتی ہیں۔ ان لڑکیوں اور عورتوں کا نامحرموں کے ہاتھ میں اس طرح ہاتھ دے دینا اور وہ ہاتھ دبا دبا کر چوڑیاں پہنائے کم از کم مسلمان عورت کو تو ہر گز زیب نہیں دیتا۔ میری پیاری بہنو! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کیا غیرت، ایمان اور حیا نام کی کوئی رمق باقی نہیں رہی؟ کہاں تو شریعت پاک کا یہ حکم کہ نامحرم کا کپڑا بھی نہ چھوئے اور کہاں یہ بے غیرتی کا مظاہرہ کہ ان کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے دیا جائے۔ کبھی راہ چلتے ہوئے کوئی آپ کا ہاتھ پکڑ کر دبا دے تو دل پر کیا گزرے گی۔ کیا یہ چوڑی پہنانے والے فرشتے ہوتے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ اللہ کا واسطہ نہ اپنا ایمان برباد کریں اور نہ اس کی آخرت تباہ کریں۔ کیا ان باتوں کو دیکھ کر کسی ماں کی پیشانی پر بل آتا ہے یا باپ اور بھائی کی غیرت بیدار ہوتی ہے یا کسی شوہر کو غصہ آتا ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔ چوڑیاں پہنانے کے بہانے دوسروں کی ماں، بہن، بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر دبانے والے اپنے گھر پر بھی نظر رکھیں۔ اللہ کی نگاہ سے تیرے دل کے خیالات چھپ نہیں سکتے اور جب تجھے اللہ پکڑے گا تو پھر تجھے پشیمانی اٹھانی پڑے گی۔ ایک بزرگ سچا واقعہ بیان فرماتے ہیں پڑھیے اور اپنا محاسبہ کیجئے۔
ایک شخص چوڑیاں بیچا کرتا تھا لیکن اللہ سے ڈرتا تھا اگر کوئی عورت اسے چوڑیاں پہنانے کے لئے کہتی تو صاف منع کردیتا کہ یہ جائز نہیں کہ نامحرم مرد کسی عورت کا ہاتھ چھوئے اس کے گھر میں ایک نابینا بہشتی (پانی بھرنے والا) آیا کرتا تھا۔ وہ دروازہ کھٹکھٹاتا اس کی بیوی دروازہ کھول دیتی اور وہ سیدھا مٹکوں کے پاس جاتا اور مٹکوں میں پانی بھر کر چلا جاتا اور یہ دروازہ بند کردیتی۔ ایک دن یہ مرد دوکان پر بیٹھا چوڑیاں بیچ رہا تھا کہ ایک عورت آئی اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر کہا کہ مجھے چوڑیاں پہنا دیں۔ اس پر نفس غالب ہوا اور شیطان نے اسے بہکایا اور اس نے عورت کا ہاتھ پکڑ کر چوڑیاں پہنانا شروع کیں۔ اب یہ اس کے ہاتھ کو دباتا رہا، چوڑیاں پہناتا رہا اور نفس کی خواہش کی تکمیل ہوتی رہی جب شام کو دکان بند کرکے گھر پہنچا تو دیکھا کہ بیوی بیٹھی رو رہی ہے۔ اس نے استفسار کیا کہ رونے کی کیا وجہ ہے تو اس عورت نے کہا کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے آج کون سا ایسا کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا۔ اب یہ شخص پریشان ہوا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اس نے بتایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں چوڑیاں بیچتا ہوں اور اگر مجھے کوئی عورت پہنانے کے لئے کہے تو میں اسے صاف منع کردیتا ہوں لیکن آج ایک عورت نے مجھے بار بار چوڑیاں پہنانے کے لئے کہا تو اس کے گورے گورے ہاتھ دیکھ کر میں بہک گیا اور اس کے ہاتھوں کو دبا دبا کر میں نفس کی راحت کا سامان حاصل کرتا رہا اور اسے چوڑیاں پہناتا رہا یہ وہ عمل ہے جو میں نے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔ یہ سن کر اس کی بیوی نے کہا کہ آج جب نابینا بہشتی (پانی بھرنے والا) آیا تو میں نے دروازہ کھول دیا۔ اس نے دائیں بائیں ہاتھ مارنا شروع کردیا اور کہنے لگا کہ مجھے مٹکے سجھائی نہیں دیتے۔ میں نے کہا جہاں پر پہلے ہوتے تھے وہیں پر رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کا یہی اصرار رہا کہ میرا ہاتھ پکڑ کر مٹکوں کے پاس کردو تاکہ میں مٹکوں میں پانی بھر سکوں۔ میں جیسے ہی اس کے ہاتھ کی انگلی پکڑ کر مٹکوں کے قریب کرنے لگی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میرا ہاتھ دبا دبا کر اپنی طرف کھینچتا رہا، جب میں نے جھٹکا مار کر ہاتھ چھڑایا تو وہ سیدھا مٹکوں کے قریب گیا اور پانی بھر کر گھر سے نکل گیا۔ اس واقعہ کو سن کر اس شخص کی رو رو کر ہچکی بندھ گئی اور اللہ کے حضور میں سچی توبہ کی کہ آئندہ کسی کی ماں، بہن یا بیوی کو چوڑیاں نہ پہناؤں گا تاکہ رب العزت میری عزت کو اپنی امان میں رکھے۔ میری پیاری بیٹی یہ دنیا مکافات عمل ہے یہاں جو بوئے گا وہاں اسی کو کاٹے گا بھی اور حشر میں جو حال ہونا ہے وہ ہمیں قرآن و حدیث کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوجائے گا۔
امام صاحب سے فتویٰ پوچھا گیا کہ عورتوں کا قبرستان میں جانا جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ایسی جگہ جانا جائز نہیں اور پوچھنے والے سے آپ نے یہ فرمایا کہ یہ پوچھو کہ اس فعل میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے۔
۱)جب گھر سے قبرستان کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے اللہ اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے۔
۲) جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو سب طرف سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں۔
۳) جب قبر تک پہنچتی ہے میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے۔
۴) جب واپس آتی ہے اللہ کی لعنت میں ہوتی ہے۔
کبھی مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے غور کیا ہے کہ متبرک راتوں میں کس طرح عورتیں سج دھج کر ٹولیوں کی صورت میں قبرستان جاتی ہیں۔ جس طرح متبرک راتوں میں اللہ کی عبادت کا ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح ان راتوں میں نافرمانی پر گناہ بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں جمعرات کو عورتیں خصوصی طور پر اہتمام کے ساتھ قبرستان جاتی ہیں اور اگر کوئی روکنے کی کوشش کرے تو کہتے ہیں یہ وہابی ہے اس لئے منع کرتا ہے۔ میں اپنی بہنوں سے ہاتھ باندھ کر عرض کرتا ہوں کہ دین کے معاملے میں بداحتیاطی اچھی نہیں اگر کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اپنے مسلک کے عالم دین سے پوچھ لیں انشاء اللہ نجات پائیں گے۔ وہ مشائخ جن کی اجنبی جوان مرید عورتیں ان کے قدم اور ٹانگیں دبائیں، ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیں، آنکھوں سے لگائیں یہ جائز نہیں ان مشائخ کو اللہ کا خوف کرنا چاہئے اور انہیں ان حرکات سے بشدت روکنا چاہئے۔ ان میں بکثرت عورتیں اللہ کے لئے اس محبت کا اظہار کرتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ اس محبت اور خدمت سے رب کا قرب حاصل ہوگا لیکن دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ غیر شرعی فعل کرتی ہیں۔ اب مرشد کا فرض ہے کہ ان کی رہنمائی فرمائے اگر اس نے اس حق کو ادا نہ کیا تو یہ دہرا عذاب پائے گا۔ ایک خود اللہ کی نافرمانی کرنے کا عذاب اور دوسرا مسلمان عورتوں کو گمراہ کرنے کا عذاب۔ عورت کا پیر و مرشد عورت کا غیر محرم ہے اس لئے مریدہ کو اپنے پیر سے پردہ کرنا فرض ہے اور پیر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ اپنی مریدہ کو بے پردہ دیکھے یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھے بلکہ پیر کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ عورت کا ہاتھ پکڑ کر اس کی بیعت کرے۔
حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ عورتوں سے صرف زبانی اقرار لے کر بیعت لیا کرتے تھے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی ایسی عورت کو نہ چھوا جو آپ کے نکاح میں نہ ہو۔ (المصنف لعبد الرزاق)
دین اسلام کوئی بے جا پابندیوں کا نام نہیں بلکہ بہترین زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔
حضرت جا برؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنا چا ہے اور اس کو دیکھنے پر قا در ہو تو ضرور دیکھ لے۔
(مشکوٰۃ المصابیح:رقم الحدیث:2972 )
یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ڈاکٹر یا طبیب مریضہ کے صرف اس حصے کو دیکھ سکتا ہے جس کو علاج کے لئے دیکھنا ضروری ہو۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طبیب سے کوئی پردہ نہیں صرف جہالت پر مبنی ہے۔ عورت کو کوشش کرکے ایسے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا چاہئے جو امین ہو۔ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر عورت ڈوب رہی ہو یا اسے آگ لگ گئی ہو تو اسے بچانے کے لئے اس کے جسم کے کسی حصہ کو ہاتھ لگانا یا دیکھنا ممنوع نہیں کیونکہ اس کی جان بچانا فرض ہے۔
غیر مسلم عورتیں اور وہ عورتیں جو غیر محرم مردوں کے سامنے اس کا بیان کرسکتی ہوں یا آوارہ قسم کی عورتوں کے سامنے مسلم عورت کو اپنی پوشیدہ زینت کی جگہوں کو کھولنا ممنوع ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا۔ یایھاالذین امنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا ا و تسلموا علی اھلھا ذالکم خیر لکم لعلکم تذکرون فان لم تجدوا فیھا احدا فلا تدخلو ھا حتی یوذن لکم(النور 28,27:24)
“اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج دو یہ طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ ملے۔”
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ضروری ہے اگر اجازت نہ ملے تو واپس ہوجانا چاہئے۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ ہے کہ دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہو، دائیں یا بائیں طرف کھڑے ہوں، سلام کریں اور اپنا نام بتائیں اگر جواب نہ ملے یا اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے اور اس کو عار نہ جانے کہ شریعت کا یہی حکم ہے۔
اسلام نے بلا اجازت داخل ہونے پر ہی پابندی نہیں لگائی بلکہ بلا اجازت کسی کے گھر جھانکنا بھی ممنوع ہے۔ حدیث پاک ہے:ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں ایک سوراخ سے جھانکا اس وقت آپ ﷺ ایک لکڑی سے اپنے سر مبارک کو کھجا رہے تھے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں تمھاری آنکھ پھوڑ دیتا۔
(صحیح البخاری:کتاب الاستیذان:باب الاستیذان من اجل البصر)
ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جو شخص کسی قوم کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے تو اس قوم کے لئے جائز ہے کہ اس کی آنکھ پھوڑ دے۔(صحیح مسلم:رقم الحدیث:5527)
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور بندہ ان احکامات کو بے جا پابندی کہہ کر اپنی تباہی کے اسباب پیدا کرے۔ قسم اس پاک ذات کی جو روز قیامت نیکوکار اور گناہ گاروں کو الگ الگ کردے گا تیری بھلائی اس پیارے دین پر عمل کرنے میں ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب تم سے کوئی کسی کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرے،اسے اجازت نہ ملے تو اسے چاہیئے کہ وہ واپس لوٹ جائے۔ (صحیح البخاری:کتاب الاستیذان: باب التسلیم و الاستیذان ثلاثا)
ایک روز حضور اکرم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور السلام علیکم و رحمۃ اللہ فرمایا حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن لیا اور آہستہ سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ عرض کیا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے دوسری بار سلام فرمایا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر آہستہ سے وعلیکم السلام کہہ دیا جب تیسری بار حضور نبی کریم ﷺ کے سلام کے جواب میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آہستہ سے وعلیکم السلام کہا اور حضور نبی کریم ﷺ واپس تشریف لے جانے لگے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور عرض کی جتنی بار آپ نے سلام فرمایا میں نے سنا اور جواب دیا، میرے آہستہ جواب دینے کا مقصد یہ تھا کہ حضور ﷺ بار بار سلام فرمائیں اور مجھے اس کی برکت حاصل ہو” (سنن ابی داؤد:رقم الحدیث:5185)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا
یایھا الذین امنوا لیستا ذنکم الذین ملکت ایمانکم و الذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرات من قبل صلوۃ الفجر و حین تضعون ثیابکم من الظھیرۃ و من بعد صلوۃ العشاء ثلت عورات لکم لیس علیکم ولا علیھم جناح بعد ھن طوافون علیکم بعضکم علی بعض کذلک یبین اللّٰہ لکم الایت واللّٰہ علیم حکیم (النور58:24)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو لازم ہے کہ تمہارے مملوک (غلام، باندی) اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں، صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر کو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمہارے لئے پردے کے ہیں اس کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ان پر۔ تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے اس لئے
اللہ تمہارے لئے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
واذا بلغ الاطفال منکم الحلم فلیستا ذنوا کمااستاذن الذین من قبلھم کذلک یبین اللّٰہ لکم ایا تہ واللّٰہ علیم حکیم (النور59:24)
اور جب تمہارے بچے عقل کی حد تک پہنچ جائیں تو چاہئے کہ اس طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہتے ہیں، اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات تمہارے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
والقواعد من النساء التی لایرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیایھن غیر متبرجات بزینۃ o وان یستعففن خیر لھن واللّٰہ سمیع علیم o (النور60:24)
اور جو عورتیں جوانی گزار کر بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں وہ اگر اپنی اوڑھنی (برقعہ) اتار دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے، اللہ سب کچھ سنتا اور انتا ہے۔
آئیے ہم اس تمام تحریر کی اصل کی طرف لوٹتے ہیں۔ جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیت 21میں بیان فرمائی ہے۔
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللّٰہ والیوم الاخرو ذکر اللّٰہ کثیراo (الاحزاب21:33)
فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ(ﷺ کی ذات)میں نہایت ہی حسین نمونہ(حیات)ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے)کی اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتاہے۔
مندرجہ بالا آیت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہر آدمی کے لئے حضور ﷺ بہترین نمونہ ہیں اور خصوصاً ان نیک بخت لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی اور روز محشر دوبارہ زندہ ہونے کی امید رکھتے ہیں وہی اس بہترین نمونے سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں انہی کے دلوں کو جمال مصطفوی ﷺ اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔
ینساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض و قلن قولا معروفا o (الاحزاب :32)
اے نبی کی ازواج (مطہرات) تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف اور سیدھی بات کیا کرو۔
و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الا ولی واقمن الصلٰوۃ واتین الزکٰوۃ واطعن اللّٰہ ورسولہ انما یریداللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا o (الاحزاب: 33)
اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور اپنی آرائش و نمائش نہ کرو، سابق دور جہالت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کردے اور تم کو پوری طرح پاک کردے۔
مندرجہ بالا آیات سے جو حکم ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری کے تحت کسی نامحرم سے بات کرنی پڑ جائے تو اس کے ساتھ ایسے باوقار طریقے سے بات کرو کہ اس کے بیمار دل میں آپ کے متعلق کوئی غلط خیال پیدا نہ ہو۔
گفتگو کا انداز کئی غلط فہمیوں کا اور جسارتوں کا سبب بن سکتا ہے اس لئے اس دروازہ کو ہی بند کردیا جو آنے والے وقت میں کسی خرابی کا سبب بنے اس کے ساتھ ساتھ گفتگو میں کوئی ایسی ناشائستگی بھی نہ ہو جو لوگوں کی دل شکنی کا باعث ہو۔ ٹیلیفون پر جوان لڑکے اور لڑکیاں باتوں کی چاشنی سے ایک دوسرے سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ نوبت ملاقات تک اور پھر حالات کس ڈگر پر آتے ہیں سب کے سامنے ہیں۔ اس لئے ضرورت کے علاوہ کسی نامحرم سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر ضروری یا بغیر مقصد کے باہر گھومنے کی ممانعت ہے۔ دین اسلام کے نزدیک عفت و عصمت کی جو قدر و منزلت ہے اس کے پیش نظر حکم صادر کیا جارہا ہے تاکہ عفت و عصمت کی حفاظت کی جاسکے۔ کوئی بھی عقل مند آدمی گھر میں ہیرے جواہرات رکھ کر چوروں کے لئے دروازے کھلے نہیں چھوڑ دیتا۔
کچھ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کی بچیاں، بہنیں، پختہ کردار کی مالک ہیں وہ اگرچہ قیمتی اور بھڑکیلے لباس پہن کر بے پردہ پھرتی رہیں تو ان کی عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہ آئے گی۔ ان کی یہ خوش فہمی انہیں بہت مہنگی پڑے گی۔ خدا کی قسم جس نے اپنے رسول کو حق دے کر بھیجا عاجز نے کئی ایسے گھر برباد ہوتے ہوئے اور ان بچیوں کے والدین کو دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔
جاننا چاہئے کہ خالق کائنات نے انسان کو فطری طور پر چند ایسے احساسات اور جذبات عطا کئے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہر انسان اپنی دماغی و جسمانی صلاحیتیں صرف کرتا ہے تاکہ ان جذبات کی تسکین ہوسکے۔ جب وہ بھوکا ہوتا ہے تو پیٹ بھرنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے جب پیاسا ہوتا ہے تو پانی کی طرف دوڑتا ہے۔ ان فطری خواہشات میں ایک جذبہ جنسی بھوک یا حیوانی تقاضہ بھی ہے جو بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔ جنس مخالف ہمیشہ کشش کا باعث ہوا کرتی ہے۔ ان بچیوں اور بہنوں کو بے پردگی کی اجازت نہ دیں اور محبت پیار سے اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کریں۔ عام کہاوت ہے جوانی مستانی ہوا کرتی ہے اور اس مستانگی کو قابو میں رکھنے کے لئے دین اسلام کے کچھ اصول و ضوابط متعین کئے ہیں تاکہ انسان جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے جانوروں کی مثل نہ ہوجائے۔ ان کے لئے نظر کی حفاطت، ستر پوشی، پردے اور نکاح کے احکام ہیں۔ جو ان احکام سے آزاد ہیں وہ صرف اور صرف تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ آج کل ماڈرن سوسائٹی کے تحفوں میں ٹی وی اور وی سی آر کے فحش پروگرام اور مخلوط محفلوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کو بالغ ہونے سے پہلے ہی ان کے جذبات و احساسات کو جوان کردیا ہے۔ فحش تصویروں کے علاوہ بے پردہ لڑکیوں سے میل جول کی وجہ سے ۸، ۱۰ سال کی عمر کے بچے بھی بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ دین اسلام اپنے پیروکاروں کی زبوں حالی پر خون کے آنسو رو رہا ہے اور سنا ہے کہ غیرت اور حیا نے شرم کی وجہ سے کسی ویرانے میں خودکشی کرلی ہے۔
سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
“خیرمتا ع الدنیا المرأۃالصا لحۃ” (النسائی:کتاب النکا ح:باب:المرأۃ الصالحۃ)
یعنی دنیا کی نعمتو ں میں بہتر ین نعمت نیک عورت ہے۔
مندرجہ ذیل واقعہ بار بار پڑھیے اور اندازہ لگائیے کہ ایک نیک اور پاک دامن صالح عورت کا اللہ کی بارگاہ میں کیا مقام ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب اخبار الاخیار میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہندوستان میں قحط پڑ گیا۔ سب لوگوں نے دعا کی مگر بارش نہ ہوئی، لوگوں نے حضرت نظام الدین ابو المؤید رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کی۔ آپ نے اپنی والد ہ بی بی سارہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھا کے دامن کا دھاگہ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا۔ یا اللہ یہ اس خاتون کے دامن کا دھاگہ ہے جس پر کسی نامحرم کی نظر نہیں پڑی اس کے طفیل پانی برسا دے۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دعا کی ہی تھی کہ بادل آئے اور زور و شور سے بارش ہونے لگی۔
(اخبار الاخیار:ص:383)
پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا ذریعہ ہے۔ پردہ میں رہ کر عورتوں نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جو تاریخ میں سنہرے حروف میں منقول و مرقوم ہیں۔
جنتی عورتوں کی سردار حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طبیعت میں حیا بہت تھی، جب آپ رضی اللہ عنہا کا آخری وقت آیا تو آپ نے حضرت بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ میں اس با ت کو نا پسند کرتی ہوں کہ میرا جنا زہ کھلا لے جا یا جائے۔جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کے جنازہ کوڈھانپ کر لے جا یا گیا اور رات کو دفن کیا گیا۔(اسدالغا بۃ)
حضرت ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی بہادر صحابی رسول تھے۔ کفار سے جنگ کے دوران اس قدر بہادری سے لڑتے تھے کہ کفار کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیتے تھے۔ شام کے بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرفتار کرکے پیش کرے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ ایک فوجی کمانڈو کو موقع مل گیا اور گھیرا ڈال کر آپ کو گرفتار کرلیا اور500 فوجیوں کے پہرے میں ملک شام کے بادشاہ کی طرف روانہ کیا۔ جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کی گرفتاری کی خبر پہنچی تو آپ نے 300مجاہدین اسلام کے ساتھ ان کا پیچھا کیا جب آپ وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ 500 کافروں سے صرف ایک نقاب پوش نبرد آزما ہے جس کے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ وہ گھوڑے پر سوار ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے حملہ آور ہوتا ہے اور کفار کا سینہ چیرتا ہوا کئی کافروں کو جہنم رسید کرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے، پھر گھوڑے کی لگام کھینچ کر پلٹتا اور حملہ آور ہوتا ہے اور نیزے سے کافروں کے جسم کو چھیدتا ہوا گزر جاتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی بہادری کو دیکھ کر حیران ہوگئے اور فرمایا کہ سلام اس کی عظمت پر کہ تن تنہا 500کفار سے نبرد آزما ہے۔ آپ نے جاتے ہی کفار پر حملہ کردیا تھوڑی ہی دیر میں انہیں مولی گاجر کی طرح کاٹ کر حضرت ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزاد کروالیا۔ جیسے ہی حضرت ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ آزاد ہوئے نقاب پوش میدان سے نکل کھڑا ہوا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز لگائی اے نقاب پوش مجھے اپنا چہرہ دکھا کہ میں جانوں یہ کس ماں کا بیٹا اور کس باپ کا خون ہے جس نے تن تنہا 500 کافروں کا مقابلہ کیا، میں ان والدین کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایسی اولاد کو جنم دیا لیکن نقاب پوش نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور فرمایا کہ اگر تونے اپنا نقاب نہ ہٹایا تو میں آگے بڑھ کر تیرا نقاب پلٹ دوں گا تاکہ میں جانوں کہ یہ میری قوم کا شہسوار کون ہے جس کے ارادوں اور عزم کے سامنے 500کفار بھی نہ ٹھہر سکے۔ یہ سن کر نقاب پوش بولا اے خالد بن ولید میرے قریب نہ آنا میں مرد نہیں بلکہ پردہ نشین عورت ہوں، میں ضرار کی بہن خولہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ہوں یہ سنتے ہی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھوڑے کی لگام کھینچ لی اور واپس پلٹ گئے۔”
کیا میری قوم کی بہنیں اور بیٹیاں پردہ اتار کر اس سے بھی بڑے کام کررہی ہیں، میری پیاری بہن، میری بیٹی کہیں تیری بے راہ روی پوری قوم کو نہ لے ڈوبے۔ اس سے پہلے کہ تیری رگیں چیر کر تیری روح کو نکالا جائے۔ تیرے کان کے پردے پھٹ جائیں، تیرا خون جل کر سیاہ ہوجائے، تیری ہر خواہش کو پورا کرنے والے بھی تیری مدد نہ کرسکیں اور پھر آخری توبہ کا در بھی بند کردیا جائے اور حسرت و ناامیدی تجھے آگھیرے، لوٹ آ اور اس محبوب حقیقی کی رحمت کی آغوش میں پناہ لے جو سچی توبہ کرنے پر صرف گناہوں کو معاف ہی نہیں فرماتا بلکہ گناہوں کو نیکیو ں میں تبدیل فرما دیتا ہے۔
پردے کا حکم صرف یہی نہیں کہ نامحرم کے سامنے نہ جائے بلکہ خود بھی کسی نامحرم پر نظر نہ ڈالے۔ ام المومنین ام سلمٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ام المومنین بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں کہ عبداللہ ابن ام مکتوم (نابینا صحابی) تشریف لائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس سے پردہ کرلو ام سلمٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ وہ تو نابینا ہے ہمیں نہیں دیکھتااور نہیں جانتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور تم بھی اسے نہیں دیکھتیں؟ (جا مع تر مذی:کتاب الاستیذان و الادب:باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال)
جس گلاس میں نامحرم نے پانی پیا ہو اس گلاس یا برتن میں اس جگہ منہ لگا کر پانی پینا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔ دین اسلام نے صرف زندگی میں ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ستر پوشی کا حکم دیا ہے۔ مرد میت کے لئے تین کپڑے اور عورت کے لئے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔ مرد کے جنازے پر ایک لمبی چادر ڈال دینا کافی ہے مگر عورت کے جنازے پر اس چادر کے ساتھ گہوارہ لگانا ضروری ہے تاکہ جسم کے طول کو عرض کی کیفیت نہ کھل سکے۔ مرد کو دفن کرتے وقت کسی آڑ کی ضرورت نہیں لیکن عورت کی تدفین کے وقت قبر پر پردے کے لئے کپڑے کی چادر تاننا ضروری ہے۔ مرد کو کوئی بھی قبر میں اتار سکتا ہے مگر عورت و صرف محرم قبر میں اتار سکتا ہے۔
یاد رکھیے روز قیامت نہ والدین اولاد کو بچا سکیں گے اور نہ اولاد والدین کو کہ روز قیامت جب بدکاری اور برائی کا رجسٹر دیا جائے گا تو بیوی کہے گی میں شوہر کے تابع تھی اس نے مجھے گناہ سے منع کیوں نہ کیا اب جو سزا مجھے دی جائے اس سے دوگنی میرے شوہر کو دی جائے۔ اولاد کہے گی والدین نے گناہوں سے نہیں روکا بلکہ اگر نیکی کی طرف راغب بھی ہوئے تو نیکی کی نہ کرنے دی۔ ماں نے پردے سے روکا کہ ابھی سے ہی بی اماں بن گئی ہو، بڑی عمر پڑی ہے پردہ کرنے کے لئے۔ باپ نے داڑھی رکھنے سے روکا اور سختی سے منع کیا کہ دنیا میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں آخر زمانے کو بھی منہ دکھانا ہے۔ ہائے افسوس صد افسوس یہ تو نہ سوچا کہ اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو توڑ کر آخرت میں کیا منہ دکھائیں گے لیکن اگر کوئی نفس کا مارا رب کے دین سے بغاوت پر اکسائے تو اس کی بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ عاجز کی جوانی کے دنوں کے ایک دوست نے مسجد میں بیٹھ کر یہ واقعہ بیان کیا سنیں۔ اور سوچیں کہیں اسی گرفت میں ہم تو نہیں آرہے!
دوست نے بیان فرمایا کہ میں آزاد کشمیر کے ایک علاقے کی مسجد میں نماز ادا کرنے گیا تو وہاں مجھے ایک سفید ریش بزرگ ملے۔ وہ روتے ہوئے میرے پاس آئے اور میرے پیروں کو ہاتھ لگا کر التجا کرنے لگے کہ میرے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ میری شرم کے مارے بری حالت ہوگئی تھی کہ یہ سفید ریش بزرگ میرے پیروں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ میں نے عرض کی بابا مجھے شرمسار نہ کریں میں آپ کے بیٹوں کی عمر کا ہوں اور آپ میرے پیروں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ بیٹا میں اتنا پریشان ہوں کہ ساری ساری رات رو کر گزار دیتا ہوں، مجھے نیند نہیں آتی، سارا دن گزر جاتا ہے میں ایک گھڑی چین نہیں پاتا میں نے عرض کی بابا ایسی کیا بات ہے کہ آپ اتنے پریشان ہیں، اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے آپ اس ذات سے بخشش کی امید رکھیں۔ اس بزرگ نے فرمایا بیٹا میں اس علاقے کا زمیندار ہوں یہ زمین اور باغات میری ملکیت ہیں، میرا اکلوتا بیٹا تھا، میں نے اسے بہترین تعلیم دلوائی، اسے ایم بی بی ایس کروایا۔ اس کے بعدا س کی چاہت پر میں نے اسے ایف آر سی ایس کرنے کے لئے انگلینڈ بھیجا۔ جب وہ تعلیم مکمل کرکے واپس آیا تو میں اسے کراچی ائیرپورٹ پر لینے گیا (اس لئے کہ اس وقت بین الاقوامی پروازیں صرف کراچی آیا کرتی تھیں) جب میں نے اسے جہاز سے اترتے دیکھا تو میرے پاؤں کی زمین ہی نکل گئی۔ اس سے چلا نہیں جارہا تھا۔ وہ بخار سے تپ رہا تھا میں اسے بڑی مشکل سے اپنے گھر لے آیا، اسے غشی پر غشی پڑتی تھی اور ہم سب خاندان کے لوگ انتہائی پریشان تھے۔ میں اس حالت میں اپنے بیٹے کو چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا اور سر سجدے میں رکھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اے باری تعالیٰ میرا صرف یہی ایک بیٹا ہے، میری تمام خوشیاں اسی کے دم سے ہیں، اے رب کریم میری زندگی میرے بیٹے کو دے دے۔ یا اللہ اسے شفا دے دے میں ابھی دعا کر ہی رہا تھا کہ میرا بھائی دوڑکر آیا اور بتایا کہ بیٹے نے آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ آپ کو بلا رہا ہے۔ میں بھاگا ہوا گیا، جیسے ہی میں نے جھک اپنے بیٹے کی پیشانی چومنا چاہی میرے بیٹے نے میرا گلا دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور میرا گلا گھوٹنے لگا۔ اس کی ماں نے کہا بیٹے یہ کیا کرتے ہو، یہ تمہارا باپ ہے، اس کے تم پر بے شمار احسانات ہیں شرم کرو میرے بیٹے نے قہر آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا یہ میرا باپ نہیں یہ میرا دشمن ہے۔ اس نے مجھے ایم بی بی ایس کروائی پڑھنے کے لئے باہر بھیجا، ایف آر سی ایس کروائی لیکن نہ ہی نماز کی پابندی کروائی اور نہ ہی سنت کی اتباع کروائی۔ میں اللہ کی نافرمانی کرتا رہا۔ اللہ کے دین کو چھوڑ کر دنیا میں غرق رہا۔ اب میرا نامہ اعمال میرے سامنے ہے اور میں جہنم میں اپنا مقام دیکھ رہا ہوں۔ میں اپنے اس باپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اس کی ماں رونے لگی، گھر کے دوسرے افراد اس کے ہاتھوں سے میرا گلا چھڑاتے تھے اور وہ میرا گلا گھونٹ کر مارنا چاہتا تھا اسی کشمکش میں اس کا جسم اکڑنے لگا، ہاتھ ڈھیلے پڑنے لگے آخر وہ مر گیا اور میرے گلے سے ہاتھ چھوٹ گئے لیکن ہائے یہ وقتی آزادی ہے جب میرا یہی بیٹا حشر کے میدان میں میرا گلا گھونٹے گا وہاں کون چھڑائے گا۔ یہ واقعہ سنا کر بابا اس طرح رونے لگے جس طرح بچہ سسکیاں لے لے کر روتا ہے۔ بابا کے رونے نے مجھے بھی رلا دیا، آخر ہم روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔
میری پیاری بہن اور برادرمن! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے! اور اگر نوازا ہے تو آپ نے اس کا حق ادا کیا ہے؟ جانئے یہ کوئی حق نہیں کہ بیٹا ڈاکٹر بن گیا یا انجینئر بن گیا۔ ڈی سی اور ایس پی بنا دیا۔ تجھے دین اسلام دنیا کی ترقی سے نہیں روکتا۔ علم حاصل کیجئے بڑے سے بڑے آفیسر بنئے لیکن اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ﷺ کے سچے غلام بھی بنئے اگر ایسا ہے تو خدا کی قسم فائدہ ہی فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر آپ بہت خسارے میں ہیں۔ جب تک زندگی کی دکان کھلی ہے اپنے خسارہ کو نفع میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں نہیں تو زندگی کی برف پگھل جانے کے بعد پانی بھی ہاتھ نہ آئے گا۔
بے حیائی اور بے دینی کے طوفان میں بہتے نہ جائیے اپنے بچاؤ کے لئے کچھ ہاتھ پیر مارئیے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جب بندہ کوشش کرتا ہے تو میں اسے ضرور بہ ضرور راستہ دکھاتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ہونے کے ناطے شرم و حیا کو پسند نہ کرتا ہو یا گناہ کو چھوڑنا نہ چاہتا ہو لیکن ماحول و معاشرے کی طاغوتی طاقتوں نے ہمیں ایسے جکڑ رکھا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس سے چھڑا نہیں سکتے یا ہم ان غلاظتوں سے اتنے مانوس ہوچکے ہیں کہ ہمیں اللہ کا نور اور رسول کریم ﷺ کے دین کی خوشبو اچھی نہیں لگتی۔ اس کا حل کیا ہے؟
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ بہت سی پیاری حکایت کے ذریعہ یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک بھنگی گندی نالیاں اور بیت الخلاء صاف کرکے اپنی زندگی گزارتا تھا اور اس کی رگ و نس میں بدبو سما گئی تھی ایک دن یہ بھنگی عطر فروشوں کے بازار سے گزرتا ہے چونکہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی خوشبو سونگھی ہی نہ تھی اس لئے جیسے ہی اس کے دماغ میں خوشبو کے جھونکے پہنچتے ہیں اسے چکر آنے لگتے ہیں اور یہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر جاتا ہے۔ لوگ اس کے منہ میں پانی ڈالتے ہیں، کوئی اس کے ہاتھ پیر ملتا ہے کوئی اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے لیکن اسے ہوش نہیں آتا۔ اتنے میں اس کے بھائی کا گزر وہاں سے ہوا، اس کی نگاہ اپنے بھائی پر پڑی تو اس نے لوگوں سے کہا کہ آپ دور ہٹ جائیں یہ ابھی ہوش میں آجائے گا۔ اس نے بازار میں پڑی ہوئی گدھے کی تازہ تازہ لید اٹھا کر اپنے بے ہوش بھائی کی ناک پر رکھ دی۔ تھوڑی دیر میں اس نے آنکھیں کھول دیں، بھائی اسے عطر فروشوں کے بازار سے نکال کر دور لے گیا وہ ٹھیک ٹھاک چلنے لگا۔ لوگوں نے استفسار کیا کہ اسے کیا بیماری ہے اور ایسا علاج بھی ہم نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ اس پر اس بھنگی کے بھائی نے جواب دیا کہ میرا بھائی بھنگی ہے اس نے تمام عمر بدبو سونگھی ہے یہ خوشبو سے مانوس نہیں اس لئے جب یہ عطر فروشوں کے بازار میں آیا اور اس کے دماغ میں خوشبو گئی تو یہ بے ہوش ہوگیا، جب میں نے اس کی ناک پر گدھے کی لید رکھی تو اس کا دماغ جو بدبو سے مانوس تھا اس نے کام کرنا شروع کردیا اور یہ ہوش میں آگیا۔ اس حکایت کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہمارا دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نفس کی پوجا کرکے گناہوں کی بدبو سے مانوس ہوچکا ہے کہ اسے چھوڑتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے تو ہم کبھی کبھی ایسی مجالس میں جائیں جہاں پر قرآن پاک کی خوشبو کے جھونکے آتے ہیں، اللہ کے ذکر کی لوری دی جاتی ہے، سنت کی اتباع کی چاشنی سے آشنا کیا جاتا ہے۔ جب ہم بار بار ایسی رحمت بھری مجالس میں جائیں گے تو ہم بھی رسول کریم ﷺ کے دین کی خوشبو سے مانوس ہوجائیں گے اور اگر کبھی گناہ کی بدبو پائیں گے تو اپنی آنکھوں اور چہرے کو اس سے پھیر لیں گے جس طرح خوشبو سے مانوس شخص بدبو پاتے ہی اپنی ناک پر رومال رکھ لیتا ہے اور جلد از جلد وہاں سے دور ہٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسی مجالس جہاں پر اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت میسر ہوتی ہے ان کی شان رسول کریم ﷺ بیان فرماتے ہیں کہ جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہو اس کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اس کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اس پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ عرش پر ان کا ذکر فرماتے ہے۔ (صحیح مسلم: رقم الحدیث:6730)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:ھم القوم لا یشقی بھم جلیسھم (صحیح مسلم:رقم الحدیث:6715)
یہ (اہل ذکر) وہ لوگ ہیں جن کے سات بیٹھنے والا بد بخت نہیں ہوتا۔
صحبت اثر رکھتی ہے چاہے ایک گھڑی کی ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم ایسے شخص کو دیکھتے ہو جس میں کوئی نیکی نہیں لیکن اس کی صحبت نیکوں کے ساتھ ہے تو اسے برا نہ کہو اس لئے کہ یہ نیک صحبت بہت جلد رنگ لائے گی اور اس کی تمام برائیاں دور ہوجائیں گی اور یہ نیک ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر تم کسی شخص کو دیکھتے ہو کہ وہ نیکی کے تمام کام کرتا ہے لیکن اس کی صحبت بروں کے ساتھ ہے اسے نیک نہ کہو اس لئے کہ چند یوم میں اس کی تمام نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور یہ بھی برا ہوجائے گا۔
نیک صحبت کے بارے میں حدیث پاک ہے کہ ایک شخص اپنے دوست کی ملاقات کو جارہا تھا حکم الہٰی سے راستے میں ایک فرشتہ ملا اور اس سے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے وہ بولا فلاں بستی میں میرا ایک بھائی ہے،اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔فرشتے نے کہا:کیا تم نے اس پر کوئی احسان کیا ہے جس کی تکمیل مقصود ہے؟۔ اس نے جواب دیا کہ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ میں اس سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں۔ فرشتے نے کہا:،مجھے تمہارے پاس اللہ نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے محبت کرتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت رکھتا ہے۔
(صحیح مسلم:6426)
پس جانئے کہ اللہ کا ذکر اور نیک صحبت دلوں کو روشن کرکے اللہ کی محبت عطا کرتی ہے اور بندہ گناہوں سے بچ کر رب کی اطاعت کو قبول کرتا ہے رب العزت سے دعا ہے کہ وہ پاک ذات ہمیں ہمیشہ اپنے صالحین بندوں کی صحبت میں رہنے اور اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔